pankhey_ki_story_september_2016
by gulbooteyadmin · Published · Updated
پنکھے کی کہانی
ڈاکٹر بانو سرتاج
پنکھے سب سے پہلے جاپان میں بننے شروع ہوئے۔ ساتویں صدی عیسوی میں ایک جاپانی بھکشو نے کھجور کے پتوں کو بانس کی شاخ (ڈنڈی) میں سلقیے سے گونتھ کر پہلا پنکھا تیار کیا اور شہنشاہ ہچووی ڈسو (Hitchu V. Disu)کو ان کی سالگرہ کے موقع پر تحفتاً پیش کیا۔ شہنشاہ کو تحفہ بے حد پسند آیا۔ انھوں نے نہ صرف پنکھے کی تعریف کی بلکہ اسے شاہی محل کے نوادرات میں شامل کیا۔ جلد ہی جاپان میں مختلف قسم کے پنکھے بننے لگے۔ خصوصاً مور کے پنکھوں سے بنائے گئے پنکھے بے حد مقبول ہوئے۔ مہمان کو وداع کرتے وقت یہ پنکھے تحفتاً پیش کئے جانے لگے۔ پنکھوں پر خاندان کی تاریخ لکھ کر محفوظ کی جانے لگی۔ پنکھوں نے مذہبی حیثیت حاصل کرلی۔ یہ مانا جانے لگا کہ داروغۂ جنت پنکھے بنانے والے فنکاروں کو جنت میں داخل ہونے سے نہیں روکے گا۔ انھیں جنت میں خصوصی رعایت حاصل ہوگی وغیرہ وغیرہ۔
آٹھویں صدی میں مصر میں پنکھے کی روایت مذہبی عقیدت کے ساتھ شروع ہوئی۔ عبادت گاہوں کی دیواروںپر پنکھے ٹانگ دیے جاتے۔ عقیدت مند عبادت کے لیے آتے تو پنکھا اتار کر اس کی ہوا لیتے۔ عقیدہ یہ تھا کہ عبادت گاہ کے پنکھوں کی ہوا لینے والوں کو جنت میں جگہ ملے گی۔ گرجا گھر کے پادری اپنے ہاتھوں میں پنکھا رکھتے اور اس سے مورتیاں صاف کرتے۔پنکھوں کی نمائش بھی لگتی۔ بہترین پنکھے اس نمائش کے لیے تیار کئے جاتے۔ بادشاہ نمائش دیکھنے کے لیے آتا۔ جو پنکھے اسے پسند آتے ان کے بنانے والے فنکاروں کو انعام سے نوازتا۔نویں صدی میں ملک چین میں پنکھے بننے لگے۔ خواتین، پرندوں کے رنگ برنگ خوبصورت پروں کا استعمال کرکے پنکھے بناتیں اور مختلف طریقوں سے سجاتیں۔ بارہویں صدی میں عیسائی مذہب کے ماننے والوں نے مذہبی تقریبات میں پنکھوں کا استعمال شروع کیا۔ سونے چاندی سے بنے پنکھوں کو ہاتھ میں لے کر طواف کیا کرتے تھے۔تیرہویں صدی میں انگلینڈ کے شاہی خاندان کو ایک تاجر نے ۵۰؍ مختلف قسم کے خوبصورت پنکھے تحفتاً پیش کئے تھے۔ سولہویں صدی سے بھارت میں پنکھوں کا چلن ہوا۔ ہاتھی کے دانت سے بنے پنکھوں سے بھگوان کی مورتیوں پر ہوا کی جاتی۔ گائے کی دم سے بنے پنکھے مذہبی کتابوں پر ہوا دینے میں استعمال ہوتے۔
ہاتھ کے پنکھوں کے علاوہ مکانوں، عبادت گاہوں، وغیرہ کی چھتوں میں کپڑوں کی جھالر والے پنکھے لگائے جاتے جنھیں باہر بیٹھے خدمت گار رسی سے کھینچا کرتے۔ بادشاہوں کے تخت کے اوپر بھی جھالر دار پنکھے ہوتے۔ باندیاں ان پنکھوں کو ہلاتیں تو تمام دربار میں ٹھنڈی ہوا پھیل جاتی۔ یہ پنکھے ململ اور سیٹن کے کپڑوں سے بنائے جاتے تھے۔سترہویں صدی میں ہاتھ کے پنکھوں میں سدھار ہوا، پہلے پنکھے بہت بھاری ہوتے تھے۔ وزن میں ہلکے پنکھے بننے لگے تو ان کی افادیت بڑھ گئی۔ انھیں سنبھالنا آسان ہوا اور ہوا بھی زیادہ ملنے لگی۔سترہویں صدی ہی میں گریٹ برٹین کے ایک سائنسداں نے پیٹرول سے چلنے والا پنکھا بنایا۔ اٹھارہویں صدی میں جرمنی کے ربن نامی شخص نے بجلی سے چلنے والا پنکھا بنایا۔ یہ پنکھوں کی ترقی یافتہ شکل تھی۔ ابتدا تاڑ اور کھجور کے پتوں ، پرندوں کے پر خصوصاً مور کے پروں، گائے کی دم کے بال اور ہاتھی کے دانت سے ہوئی، پھر پیٹرول اور بجلی کا زمانہ آیا۔ صدیوں سے بجلی کے پنکھے ہی استعمال میں تھے۔ اب ایئر کنڈیشنر کا زمانہ ہے۔ پھربھی بڑی تعداد پنکھا استعمال کرنے والوں ہی کی ہے۔